۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 377756
24 فروری 2022 - 22:20
علامہ سید نظائر حسین نقوی سرسوی

حوزہ/ مرحوم عالم دین نے یوں تو پوری ذندگی ملک کے مختلف مقامات پر جُدا جُدا عنوانات سے تبلیغ دین کی لیکن انھوں احکامات شریعہ اور نشریاتِ پیغامِ  حضرتِ سیدالشہداؑ کا مرکز ضلع علی گڈھ، ضلع مُراداباد ، ضلع آکرہ اور ضلع اٹاوا کو بنایا ۔

تحریر: سید قمر عباس قنبر نقوی سرسوی

حوزہ نیوز ایجنسیہندوستان کے سب بڑے صوبے اترپردیش کے مفربی ضلعے مرادآباد (موجودہ سنبھل) کے معروف قصبے سرسی جیِسے عظیم صاحب کرامت و فضیلت اور عارف کبیر شخصیت حضرت سید جمال الدین واسطی المعروف دادا مخدوم صاحبؒ ابن سید محمد واسطی نے بسایا اور سید زید ابن سید علی نقوی المعروف سید عربؒ اور ودوة النساء بنت سید جمال الدین ؒ المعروف دادا مخدوم صاحبؒ کی نسل سے لہلہاتی ہوئی سادات نقویہ ( ماشاء اللہ اب دیگر حضرات آئمہ معصومینؑ کی اولاد بھی یہاں پر خوب ہیں- ) کی یہ بستی آج ادبی بت پرستی اور علمی ناشناسی کے دورِ نا اطمینانی میں بھی علماء وخطبا، واعظین، مفکرین ، شعراء و قلمکاروں کے ساتھ عزاداران حضرات محمدؐ و آلؑ محمدؐ خصوصاً سید الشہداؑء علیہم السلام کا مرکز بنی ہوئی ہے یہاں کے علماء و شعراء کی خدمات نہ صرف اہل سرسی بلکہ دنیائے اسلام و شیعت اور علم و ادب قدر و فخر کی نگاہوں سے دیکھتے اور جانتے ہیں ۔

مولانا سید نظاہر حسین نقوی اِسی مردم خیز بستی یعنی قصبہ سرسی کہ ایک علمی و معزز خانوادے میں حکیم سید ریحان حسین نقوی ریحان سرسوی کے یہاں جو معروف و معتبر تحت اللفظ مرثیہ خواں اور منتظم عزاء حضرتِ سید الشہداؑ تھے 7؍ اکتوبر 1921 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی والد بزرگو سے حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کے لیے مغربی ہند میں مدرسہ حضرت امام جعفر صادقؑ کی عظیم شاخ اور علمی مرکز منصبیہ عربی کالج، میرٹھ، تشریف لے گئے جہاں جید علماء اور ماہر فن اساتذہ ہے عربی و فارسی ادب کے ساتھ مختلف شعبہائے علوم اسلامی میں تعلیم حاصل کی، عربی فارسی بورڈ الہ آباد (پریاگراج) حکومت اترپردیش سے مولوی، عالم ، فاضلِ دینیات ، فاضلِ ادب ، فاضل طب اور فاضلِ معقولات کی اسناد حاصل کیں لیکن مولانا مرحوم کی علم طلب طبعیت ابھی مطمئن نہ تھی اور اسی کیفیت میں مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ہندوستان کی معروف و مستند دینی درسگاہ سلطان المدارس لکھنؤ کا علمی سفر کیا اور وہاں سلطان العماء سید محمد صاحب پرنسپل ، مولانا سید الطاف حسین ، مولانا سید علی رضوی ، مولانا سید محمد صالح ، مولانا سید محمد مہدی زید پوری، جیسے اساطین فقہ واصول، علم میزان و منطق اور علم فلسفہ سے فیضیاب ہو کر سند الافاضل اور صدر الافاضل کی ا علیٰ سندیں حاصل کیں۔

خدمات : سرسید احمد خاں کی آباد کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ شیعہ دینیات سے 1952 میں منسلک ہوئے اور 1981 تک یہاں دینی خدمات انجام دیتے رہے اس عرصہ میں شعبہ میں آپ کے ہمعصر اور شعبہ شیعہ دینیات کے چیرمین سید العلماء مولانا سید علی نقی النقوی طاب ثراہ، مفکر اسلام علامہ سید مجتبیٰ حسن کامونپوری طاب ثراہ صفوة العلماء مولانا سید کلب عابد نقوی طاب ثراہ، اور پروفیسر مولانا سید منظور محسن رضوی طاب ثراہ کے علاوہ مولانا میر علی ابراہیم حیدرآبادی مرحوم، مولانا سید آفتاب حسین نقوی شکارپوری، مولانا سید سعید اختر کاظمی صاحب جولی و دیگر علماء تھے اِس دوران آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مختلف اقامت گاہوں اور مساجد میں طلاب ، استاذہ اور غیر تدریسی عملہ کو نماز جماعت کی ادا ئیگی کے ساتھ دینی مسائل و اِحکام نیز مقصدِ عزا حضرت سید الشہداؑ سے آگاہی اور غیر شرعی امور و رسُومات کی شدّت سے مخالفت کرتے رہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد واقع سر سید ہال میں بھی آپ نے متعدد مرتبہ نماز جمعہ اور نماز عیدین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلاب ، استاذہ ، غیر تدریسی عملہ اور مومنین علیگڑھ کو (چیرمین کی غیر موجودگی) ادا کرائیں۔ دولتِ شہرت اور گروہِ مال و متاع سے دور گو شہ نشینی اور گمنامی کی دنیا کے عزیز باشندے علامہ نظائرحسین مرحوم نے دین مبین کی راہ میں قابل قدر و اعتبار خدمات انجام دیں ہیں آ پ اپنی زمہ داریوں کی ادائیگی میں کسی سمجھوتے کے قائل نہ تھے وہ خود بھی پابندگی سے فرائض کی ادائیگی کرتے اور اس سلسلے میں دوسرے کو بھی خوبصورت تاکید فرماتے ۔ چنانچہ سرسی کے موجودہ امام جمہ حجتہ الاسلام والمسلمین الحاج چودھری سید احتشام علی نقوی صاحب قبلہ کے والدِ محترم اور نگر پنچایت سرسی کے سابق چیرمین چودھری سید رونق رضا نقوی صاحب نے بتایا کہ جس وقت ہمارے والد کا انتقال کے موقع پر شدید بارش ، بجلی کا کڑکا اور تاریکی کا ماحول تھا نماز جنازہ کے لیے کوئی عالم دین دستیاب نہ تھے پتہ چلا کہ مولانا سید نظائر حسین صاحب ابھی سرسی آئے ہیں، میں نے مولانا سے نماز میت پڑھانے کی گزارش کی مولانا فوراً اِسی ماحول میں بغیر کسی تکلّف کے ساتھ چل دیے اور نمازِ میت ادا کرائی۔ مرحوم عالم دین نے یوں تو پوری ذندگی ملک کے مختلف مقامات پر جُدا جُدا عنوانات سے تبلیغ دین کی لیکن انھوں احکامات شریعہ اور نشریاتِ پیغامِ
حضرتِ سیدالشہداؑ کا مرکز ضلع علی گڈھ، ضلع مُراداباد ، ضلع آکرہ اور ضلع اٹاوا کو بنایا ۔ ماہانہ الجواد بنارس اور ماہنامہ جریدہ جعفری علی گڑھ اور دیگر رسائل و جراید میں مستقل عقائد کی مضبوطی اور مسائل دینی کی آگاہی کے حوالے سے مضامین تحریر فرماتے۔ وقت ملنے پر دثائی ادب میں شاعری بھی فرماتے۔ جو آج بھی ماتمی حلقوں یاد گار بنے ہوئے ہیں۔

اولاد : خدا وند عالم نے آپ کو 4 فرزند اور 5 دختر عطا کیں تھیں، مرحوم عالم دین نے سب بچوں کو دینی ماحول میں ممکن حد تک مذہبی اور عصری تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے اپنی شرعی ذمہ داری کو آچھی طرح پورا کرنے کی کوشش کی ۔آپ کی بڑی بیٹی عالمہ سیدہ درزہرا نقوی ایک معتبر خطیبہ اہلبیتؑ تھیں جنھوں تعلیمات دین مبین کو اپنے وطن سرسی کے ساتھ ملک و بیرون ملک میں ہزاروں مجالس کی خطابت اور اپنے مدرسہ خدیجہ الکبریٰ سرسی میں تعلیم کے ذریعہ گھر گھر پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ مضبوط عقیدے اور منفرد لب و لہجہ کے بین الاقوامی شاعر اختر سرسوی بھی آپ کے ممتاز شاگرد ہیں۔ مولانا مرحوم کے دو فرزند قلم و زبان سے مستقل خدمتِ اسلام و انسانیت اور عزا حضرتِ سید الشہداؑ کر رہے ہیں اور ماشاء اللہ یہ سلسلہ آپ کی نسلوں میں بھی جاری ہے آپ کے فرزند زادے سید سلمان رضا نقوی اور فرزند زادی سیدہ خدیجہ قنبر قُم ایران میں علمِ دین حاصل کر رہے ہیں، ماشاء اللہ آپ کے دو بیٹے ، دو بیٹیاں ، دو بہویں حجِ بیت اللہ اور زیاراتِ عتباتِ عالیہ سے مشرف ہو چکے ہیں- ایک فرزند کا شمار شہر علی گڑھ کے مقبول و معروف صاحبان بیاض میں ہوتا ہے۔

خوش لحن، صاف لہجہ، مضبوط حافظہ، تاریخ سنانے کا منفرد و پسندیدہ انداز اور پھر مصائب تو یوں درد ناک انداز میں بیان کرتے کے غیر بھی خوب گریا کرتے- علامہ مرحوم نے ملازمت سے سُبکدوشی کے بعد چند سال آگرہ میں امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے دین اسلام کی خدمت کی اور جزبہء وطن دوستی میں تنہاہیوں کی مشقتوں کا علم رکھتے ہوئے مستقل سرسی تشریف لے آئے۔مسجد ماقوفہ اور بعض دیگر مساجد میں نماز جماعت کی خدمات انجام دیں۔ امام بارگاہ کلاں میں منعقدہ عشرے اولی کو بھی خطاب کیا اس کے علاوہ تقریبا تمام امبار گاہوں/ عزا خانوں میں تاریخی مجالس کو خطاب کیا شاید اسی لئے فیلسوف الشعراء سید سرسوی کے ممتاز اور چہیتے شاگرد اور " قطعت توجہات " اور " تفہیم العروض" کے خالق علامہ قمر سرسوی نے علامہ سید نظائر حسین نقوی مرحوم کے چہلم کے موقع پر شعری زبان میں فرمایا تھا **********************
اف قیامت صاحب جوہر ادب پرور گیا-
عالم و فاضل، محقق، ذاکر سرور گیا-
ہر عزاخانے میں جس کی ذاکری مخصوص تھی
وہ کیا گیا، مجلسوں کو سونا سونا کر گیا
*****************
مالک علم و حکمت نظائر حسین
کمال علم و حکمت نظائر حسین
وحید زماں نظائر حسین
خطیب ادب جادو بیاں نظائر حسین
******************

اس خدمت کو آپ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند (راقم السطور) سید قمر عباس قنبر نقوی انجام دے رہا ہے - بارگاہ خدا وندی میں دعا ہے یہ سلسلہ سعادت علامہ کی نسلوں میں برقرار رکھنے۔

وفات : ہائے افسوس 14رجب المرجب مطابق اکتوبر 1994 شبِ شہادتِ ثانی زہراؑ حضرت زینب بنت امام علی ابن ابی طالب علیہم السلام بوقت فجر رحلت فرما گئے اور سینکڑوں مقامی اور بیرونی غمزدہ و سو گواروں کی موجوگی میں سرسی کے مرکزی امام بارگاہ ( امام کلاں) میں اُن کی وصیت کے مطابق سپردِ خاک ہوئے ۔

واضح رہے کہ مولانا مرحوم نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے امامبارگاہ میں اُس مقام پر دفن کرنا جہاں میری قبر پر زائرین حضرت سید الشہداؑ کے قدم پڑھتے رہیں تاکہ میرے ربِ کریم اِن قدموں کی برکت سے میرے درجات میں مسلسل اضافہ فرماتا رہے - نماز جنازہ حجتہ الاسلام قاضی سید حسین رضا نقوی صاحب قبلہ، امام جمعہ سرسی نے ادا کرائی۔

واضع رہے اِسی امام بادگاہ میں مولانا سید سخی احمد نقوی طاب ثراہ، مولانا سید حسین الزماں نقوی طاب ثراہ اور عالمہ سید دُرّ زہرا نقوی مرحومہ کی قبور ہیں ۔ خدائے غفور و رحیم اِن مرحومین کے ساتھ ساتھ تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .